کیا سارا دن آپ موبائل میں گم رہتے ہیں, فیس بک سکرول کرتے ہیں, چیٹ کرتے ہیں یا یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں؟
ہاں, تو یقین مانیں ان میں سے کوئی بھی کام بغیر کسی دقت کے ہوجاتا ہے اور بدلے میں ذہنی سکون مل جاتا ہے کیونکہ آپ کو اندرونی طور پر اس کی لت لگ چکی ہے. اب اگر آپ کو وراثت میں کل دس کروڑ ملنے والے ہیں اور آپ کی زندگی مستحکم ہے, مستقبل محفوظ ہے تو یہ چیزیں استعمال کرنا یقینا عادت بد نہیں کہلائی جا سکتی اور آپ کی یہ عادات تنقید سے ماوراء ہیں.
لیکن سچ یہ ہے کہ
آپ کے پاس ایسا کچھ بھی نہیں, اور نہ ہی آپ کے پاس یہ حاصل کرنے کا جذبہ ہے, اگر ہوتا تو آپ اپنے وقت کی سرمایہ کاری اس کے حصول میں کرتے!
اب سوال یہ ہے کہ
کیا آپ امیر ہونا چاہتے ہیں؟ اپنی زندگی میں خوشحالی چاہتے ہیں؟
کیا آپ امیر ہونا چاہتے ہیں؟ اپنی زندگی میں خوشحالی چاہتے ہیں؟
اگر نہیں, تو پھر جو کچھ کر رہے ہیں اسے جاری رکھیں کیونکہ یہ خوشی کو دولت کے زریعے پایا جا سکتا ہے کے قبیل کا سوال نہیں.
دولت اور خوشی دونوں الگ الگ چیزیں ہیں, لیکن اگر میں کہوں کہ دولت خوشی کے لیے سہولت کار بن سکتی ہے یا دولت ذہنی استحکام دیتی ہے تو جواب یقینا ہاں میں ہوگا. ذہنی استحکام دراصل زندگی میں آپ سے جڑے لوگوں اور آپ کے فیصلوں سے تعلق رکھتا ہے, پیسے کہ ذریعے آپ منشیات بھی خرید سکتے ہیں اور اس کے ذریعے ہی آپ منشیات زدہ علاقے کے بچوں کو سہارا بھی دے سکتے ہیں. دولت کا استعمال آپ کی شخصیت پر منحصر ہے اس لیے ذہنی استحکام آپ کے فیصلوں کی ساخت سے نظر آجاتا ہے.
خیر موضوع کی طرف آتے ہیں کہ کیا آپ اپنی زندگی میں دولت اور خوشحالی چاہتے ہیں یا نہیں؟
اگر ہاں, تو اس کے لیے آپ کو خون پسینہ بہانا ہوگا کیونکہ اب ہم اس دور میں نہیں کہ کچھ نہ کرتے ہوئے بھی سروائیو کر سکیں. یہ مارکیٹنگ کا دور ہے جہاں پر مسابقت ہی حقیقت ہے. یہاں سکلز ہی ایک ایسی پروڈکٹ ہے جو سب سے زیادہ مارکیٹ ویلیو رکھتی ہے اور کاہلی و سستی نفسیاتی سزائے موت ہے. بلکہ مجھے کہنے دیجیے کہ بڑی چیزیں تو درکنار آپ اپنی پسند کی لڑکی سے شادی تک کے روادار نہیں رہیں گے!
اسے شائد آپ میری رائے جان کر نظر انداز کرلیں لیکن یہی مارکیٹ کی حقیقت ہے. ہم خواہشوں کے انبار تلے دبے ایک ہجوم کی مانند ہیں جو ایسی لگژریز کی تمنا کرتے ہیں جو ہمارے دائرہ اختیار سے باہر ہیں, لفظ "مزید" کے ہم شیدائی ہوچکے ہیں.
اگر آپ کہتے ہیں کہ نہیں, میں ایسا نہیں ہوں تو معاف فرمائیں آپ غلط کہہ رہے ہیں. آپ پہلے سے ہی نئے فون, نئے لیپ ٹاپ, بڑے گھر اور چمچماتی گاڑی کی خواہش دل میں دبے پھر رہے ہیں.
اب زرا آپ کی عادات کی طرف ایک نظر دوڑائیں, آپ کے موبائل میں جتنا بھی کچھ ہے جس پر آپ اپنا وقت ضائع کرتے ہیں وہ ان کے لیے پیسہ بنانے کا ذریعہ ہے جو آپ انہیں ہاتھوں ہاتھ تھما رہے ہیں. یا تو آنکھیں کھولیں اور حقیقت پسند بنیں یا اس دوڑ میں مار کھائیں کیونکہ دنیا بدل چکی ہے اور آپ اس کا نشانہ ہیں.
بس اچھی بات یہ کہ آپ زندہ ہیں, ان کو پلٹ کر مار سکتے ہیں اور اپنے حصے پر دوبارہ قبضہ جما سکتے ہیں. اپنے بستر سے اٹھیں اور اس بات کو ذہن نشین کرلیں کہ آپ پیچھے رہ جانے والوں میں سے نہیں!
جب آپ نے جاگنے کا فیصلہ کرلیا تو یہ بات یاد رہے کہ کبھی بھی خود کو توقعات کے انبار تلے نہ دبائیں. مشقت کا عادی ایک دن میں نہیں بنا جاتا بلکہ یہ ایک سست رفتار عمل ہے, ہو سکتا ہے پہلے ہی دن کے پہلے آدھ گھنٹے میں ہی آپ تھک جائیں جو کہ سراسر ایک قدرتی امر ہے لیکن یاد رکھیں یہ جم کی طرح ہے جہاں کا پہلا ہفتہ شدید تھکان کا باعث بنتا ہے لیکن بعد میں آہستہ آہستہ آپ کی قوت برداشت اور سٹیمنا بڑھتی ہے اور نتیجتا آپ بہت سے فوائد سے مستفید ہوجاتے ہیں.
کام سے آپ کی عدم دلچسپی یا کام کرنے سے عاجزی صرف آپ کے جسم کی شکایت ہے جس کو نظر انداز کردیں اور آج سے ہی کام شروع کردیں. ہر دن خود کو تھوڑا تھوڑا مزید بہتر بنانا کامیابی کی کنجی ہے اس لیے ہمت نہ ہاریں کیونکہ خوشحالی کے راستے میں ہمت ہارنے کا کوئی آپشن نہیں!
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔