Friday, 2 March 2018

میری کہانی


انسان کی پیدائش محض ایک اتفاقی حادثہ نہیں ہوتا بلکہ یہ بھی کائنات کی تکمیل کا ایک اہم سبب ہے کیونکہ انسان کے بغیر یہ موجودہ چیزیں بالکل بھی ایسی نہیں ہوتیں. تخلیق انسانی کے فلسفے پر مذہب اور سائنس اپنی اپنی نظریات رکھتے ہیں لیکن بطور مسلمان ہمارے لیے مذہبی عقیدہ نہ صرف اہم ہے بلکہ قرین عقل بھی ہے کہ اتنی بڑی کائنات کیوں کر بنی اور اس میں ہم کس مقصد کے لیے جی رہے ہیں. 

30 جون کو شب کے آخری پہر, محمد ابراہیم کے گھر ایک بچے کی پہلی قلقاری سے تمام مکینوں کے لیے خوشی کی سحر طلوع ہوئی. رنجیدہ خاندان کے لیے پہلے بیٹے کی موت کی صبر آزما گھڑیوں کے بعد قدرت کا یہ حسین تحفہ تھا جس کو پا کے سب خوشی سے نہال ہوئے جا رہے تھے. محمد ابراہیم عالم تھے اور درس و تدریس کے ساتھ ادب و شاعری کی طرف خصوصی شغف رکھتے تھے, بڑی بیٹی کی پیدائش کے بعد ایک بیٹے کی صورت ان کو اپنا جانشین ملا تھا جس کا نام مشہور شاعر زکی کیفی کے نام پر رکھتے ہوئے محمد زکی رکھا گیا لیکن قدرت کی ستم ظریفی کہ وہ گیارہ ماہ کا ہوتے ہیں ایک جان لیوا بیماری کے سبب چل بسا. محمد زکی کے بعد اب اس دوسرے بیٹے کے نام کا مرحلہ درپیش ہوا تو یہ چھوٹا سا خاندان پہلے بچے کو یکسر فراموش کرنے پر آمادہ نظر نہیں آیا اور اس کے نام کے ساتھ پہلے کا نام جوڑ کر اس کی یاد کو امر کرلیا. محمود زکی کے نام سے موسوم یہ بچہ ننھیال اور ددھیال دونوں کے لیے لاڈلا بن گیا.

کہتے ہیں نام کا انسان کی شخصیت پر اثر ہوتا ہے اس لیے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ بچے کا والدین پر یہ حق ہے کہ اس کا بہترین نام تجویز کیا جائے. محمود بنیادی طور پر عربی کا لفظ ہے جو حمد کے مصدر سے اسم مفعول نکلتا ہے, جس کے معنی ہیں تعریف کیا گیا یا جس کی تعریف کی جائے. زکی بھی عربی کا ہی لفظ ہے جو پاک صاف یا طہارت کے معنی میں لیا جاتا ہے اور زکوۃ کے مصدر سے نکلا ہے. زکوۃ ہم عمومی طور پر اپنی روز مرہ کی بول چال میں بولتے ہیں جو کہ شرعا صاحب نصاب کے اوپر ایک مخصوص مال میں سال گزرنے پر فرض ہوجاتا ہے, اس کو مال کی پاکی بھی کہا جاتا ہے. چونکہ محمود ایک عام نام تھا لیکن زکی لوگوں کے لیے نایاب تھا تو لوگوں کے ذہنوں میں جلدی نقش ہوجاتا, اردودان لوگ اس کو اکثر ذکی بمعنی ذہین کے طور پر لیتے تھے اور مجھ سے پوچھتے بھی رہتے کہ آپ ذکی ہو؟ میں ازراہ تفنن جواب دیتا کہ "ذکی" ہوں لیکن میرا نام زکی ہے!

اپنے بچپن پر جب نظر دوڑاتا ہوں تو پردہ خیال پر کچھ موہوم سے واقعات چلنے لگتے ہیں جن کی شبیہہ غیر واضح ہے. ان میں سے اسکول کا پہلا دن بھی شامل ہے جس میں اب تک کارڈ کے لیے تصویر کھنچوانے کا مرحلہ ہی اس دن کو یادداشت سے محو نہ کرنے کا سبب ہے. ماں کی گود کے بعد دوسری دانشگاہ جہاں انسان سیکھتا ہے وہ بلاشبہ استاد کی مجلس ہے, میرے ابتدائی پانچ سال ایک ایسے استاد کی سربراہی میں قائم کردہ اسکول میں گزرے جو اپنے فن میں طاق تھے. سوچتا ہوں تو خود کو نارنجی رنگ کے یونیفارم میں اسکول کی سیڑھیاں چڑھتا دیکھتا ہوں, پہلی کلاسز ہیں جہاں استانی ہمیں پڑھانے کی کوشش کر رہی ہے. اچانک کلاس میں سفید داڑھی اور لمبی قراقلی والے ایک بارعب شخصیت کی آمد ہوتی ہے جس کے احترام میں سارے بچے کھڑے ہوجاتے ہیں. وہ بلیک بورڈ پر چار افقی لکیریں کھینچتے ہیں, پہلی کو چھوڑ کر باقی تینوں کے نیچے عمودی لکیر ڈال کر تینوں کو جوڑ دیتے ہیں اور آخری لکیر کے سرے پر چھوٹا سا گول دائرہ بنا کر کہتے ہیں الف سے "اللہ".. یہ خدا کے نام سے میرا پہلا تعارف ہے, میں کوشش کرکے "اللہ" لکھتا ہوں اور میرے دل میں جیسے خوشی کے فوارے چھوٹنے لگتے ہیں.

دوسری کلاس میں ہم پہنچتے ہیں تو وہی سفید داڑھی اور لمبی قراقلی والی شخصیت کلاس میں آتی ہے لیکن اس بار وہ ہمارے لیے اجنبی نہیں اسکول کے پرنسپل جناب سراج الاسلام سراج ہیں. وہ بورڈ پر لکھتے ہیں,
"محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند"
اس کی املاء کرواتے ہیں اور اس کو ترنم کے ساتھ پڑھتے ہیں, ہمیں پہلی بار معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک شعر ہے جو علامہ اقبال نے لکھا ہے, ہاں وہی علامہ اقبال جس کو ہم قائد اعظم کے حوالے سے جانتے تھے کہ پاکستان اسی کا خواب تھا جس کو قائد نے پورا کیا.

کلاس میں پوزیشن لینے پر بچوں کو بطور انعام ایک کتاب, کاپی, پنسل, ربڑ اور شارپنر کو خوبصورت ریپر میں لپیٹ کر دیا جاتا, مجھے ہمیشہ سے تجسس ہوا کرتا کہ کتاب کونسی ہوگی. شائد تجسس, مقابلہ یا پڑھائی کا ڈر تھا کہ ہر کلاس میں پوزیشن آتی اور میں سب سے پہلے کتاب ہی اس پیکٹ سے نکالتا, باقی چیزیں ابھی تک محفوظ پڑی ہیں. اس وقت تعلیم اتنی عام نہیں تھی اس لیے بڑی عمر کے بچے بھی ہمارے ساتھ پڑتے تھے, پڑھائی میں تو ان کے ساتھ مجھے کوئی مشکل پیش نہیں آئی لیکن کھیلوں میں کم عمری نے میرا راستہ روکنا شروع کردیا. ضدی اور خود پسند طبیعت نے یہ گوارا نہیں کیا کہ یوں نظر انداز کیا جاؤں, جا کر کرکٹ ٹیم کو ایک اوور کا چیلنج دے ڈالا. شمولیت کا فیصلہ اسی میچ پر منحصر کیا گیا اور اپنے سے بڑی عمر کے لڑکے کو شکست دے دی. میری ضد جیت گئی اور انا کو ایک عجیب قسم کا سکون ملا. اب سوچتا ہوں تو معلوم پڑتا ہے کہ اس چھوٹے سے زکی کے ساتھ یہ ضد, خودپسندی اور انا پرستی بھی بڑی ہوتی گئی. زندگی نے بہت کچھ سکھا دیا لیکن ان تین چیزوں پر قابو پانا نہیں سکھا پائی.

ایک وسطی کمرے, دو برامدوں اور دو عقبی کمروں پر مشتمل اس چھوٹے سے اسکول میں پانچویں تک میں پڑھتا رہا, امتحانات کا نتیجہ حسب سابق آیا تھا. میں آگے پڑھنا چاہتا تھا لیکن ابوجی کا حکم تھا کہ اب قرآن ختم کرنا ہے, اس کے لیے پورا وقت مستقلا مجھے دینا تھا. پاس ہی ایک مدرسے میں قاری صاحب کے پاس داخل کروادیا, صبح, دوپہر اور شام کے اوقات سبق کے لیے مقرر ہوئے لیکن کچھ ہی عرصے میں اس لگی بندھی روٹین سے جی اکتا گیا. بہانے بنا کر چھٹیاں کرنا معمول بن گیا جس نے کچھ عرصے میں پختگی پکڑ لی, سبق پر کبھی بھی مار نہیں پڑی لیکن چھٹیوں پر روز کی پٹائی معمول بن گئی تھی. انسان کے جسمانی ساخت کی یہ حیرت انگیز خصوصیت ہے کہ یہ حالات و واقعات کے مطابق ڈھلتا رہتا ہے, شائد اسی نہج پر سوچ کر چارلس ڈارون نے نظریہ ارتقاء کی بنیاد رکھی تھی کہ جو جاندار حالات کے ساتھ مطابقت نہیں رکھ پائے وہ معدوم ہوجاتا ہے. مجھے مار نے ڈر پر قابو پانا سکھا دیا, لیکن یہاں چھٹیوں کے ساتھ مار کے لیے ایک اور وجہ بھی آگئی تھی. کرکٹ, جس کا مجھ پر جنون سوار تھا, جس کے لیے مجھے جھلساتی دھوپ اور کڑاکے کی سردی بھی رکاوٹ نہ بن سکی. قاری صاحب کو کرکٹ سے خدا واسطے کا بیر تھا اور میں کرکٹ کے عشق میں گوڈوں گوڈوں ڈوب چکا تھا, نہ وہ سدھرے اور نہ مجھے سدھار سکے. رات کو جسم مار اور کرکٹ سے شدید دکھتا لیکن نیند مجھے خوابوں کی حسین وادی میں لے جا کر دنیا و مافیہا سے بیگانہ کردیتی. قرآن ختم ہوا لیکن اتنی مار بھی مجھ میں قاری صاحب کے لیے نفرت پیدا نہ کرسکی, ابھی بھی ان سے ملتا ہوں تو مسکرا کر کہتے ہیں, "برخوردار, کرکٹ نہ چھوڑی نا تم نے!"

جب کبھی پاکستان کا میچ ہوتا تو دیکھنے کے لیے کسی ایسی دکان کے آگے ڈیرہ ڈال لیتا جس میں ٹی وی ہوتا کیونکہ گھر میں تو لے دے کے ایک ریڈیو سیٹ ہی تھا۔ جب کسی طور میچ دیکھنے کا انتظام نہیں ہوپاتا تو پھر ریڈیو پر لائیو کمنٹری سنتا، ہر پانچ اوورز کے بعد انگلش کمنٹری شروع ہوجاتی اور میرے کان "فور" "سکس" "آؤٹ" کے الفاظ سننے کے لیے کھڑے ہوجاتے کیونکہ اس کے سوا انگریزی میرے پلے ہی نہیں پڑتی تھی!!

اس دور میں تفریح کا واحد ذریعہ میرے لیے گھر سے باہر کھیلنا یا کہانیوں کی کتابیں پڑھنا تھا, ابو کی لائیبریری میں ہر قسم کی کتابیں موجود تھیں جن کے ساتھ آہستہ آہستہ دوستی ہوتی گئی. پہلی دو کتابیں جس نے میرے ذہن پہ اس وقت بہت گہرا اثر چھوڑا تھا وہ قدرت اللہ شہاب کی شہاب نامہ اور جاحظ کی حیات الحیوان تھی. دونوں کتابوں کی ضخامت اتنی زیادہ تھی کی میری بے احتیاطی سے وہ اپنی جلد سے ہی نکل آئیں تھیں. شہاب نامہ کو اردو کلاسیک کا درجہ حاصل ہے لیکن اس وقت مجھے نہ اردو سے غرض تھی نہ قدرت اللہ شہاب سے, بلکہ میں نے تو کہانیوں کی تلاش میں اسے پڑھنا شروع کیا تھا. میں کتاب کھولتا اور شہاب نامہ کی تاریخ میں پہنچ کر کتاب میں موجود گھتیوں میں الجھ جاتا. ڈر, سسپینس اور وقوع نگاری نے مجھے اس کتاب سے جوڑے رکھا تاآنکہ میں نے اسے ختم نہیں کردیا تھا. حیات الحیوان بھی عربی ادب میں ایک اعلی مقام رکھتی ہے جس میں جانوروں کے نام حروف تہجی کے لحاظ سے درج ہیں اور ساتھ ہی ان کے نام کے ساتھ جڑے حالات و واقعات, عادات و خصائل, طبی فائدے اور خوابوں کی تعبیر لکھی گئی ہے. دونوں کتابوں نے تو مجھے اچھا وقت دیا لیکن بدلے میں میرے ہاتھوں ان کی درگت بنی.

جماعت نہم کے لیے مجھے ایک سرکاری اسکول میں داخل کیا گیا جس کا ماحول میرے لیے اجنبی تھا, اساتذہ مار کٹائی پر یقین رکھتے تھے اور سوالات ممنوع تھے. محمود نام کا اثر ہر جگہ میرے ساتھ رہتا ہے, یہاں بھی دوسرے دن سے ہی اساتذہ کی نظروں میں آگیا تھا اور وجہ بنی تھی میری لکھائی, نہ معلوم ان کو یقین تھا کہ میں بہت خوش خط لکھتا ہوں حالانکہ مجھے اس بات پر ہی حیرت ہوتی تھی. چند ماہ خیریت سے گزرے تھے کہ مجھے کلاس کا پراکٹر مقرر کرلیا گیا جس کے بعد کی مشکلات نے مجھے انسانی نفسیات کو سمجھانے میں بڑا کردار ادا کیا. میرے ہم جماعتوں کو لگا کہ میں اب ان میں سے نہیں رہا, میرے ساتھ ان کے برتاؤ میں تبدیلی آنے لگی اور بات کبھی کبھار بدتمیزی تک پہنچ جاتی. تنگ آکر میں اپنے کلاس ماسٹر کے پاس درخواست لے کر پہنچ گیا کہ مجھ سے یہ ذمہ داری لے لی جائے, انہوں نے درخواست پڑھی, چائے کا گھونٹ بھرا اور مسکراتے ہوئے کہنے لگے کہ کل دیکھیں گے. میری انا کو چوٹ لگی اور فیصلہ کرلیا کہ اب تو جو بھی ہوجائے میں نے یہ کام کرنا ہی نہیں ہے. دوسرے دن انہوں نے بلایا, کہنے لگے تم نے کبھی پانی پر غور کیا ہے اس کی ساخت نہیں ہوتی بلکہ اس کو جس بھی سانچے میں ڈالوں یہ اسی کی ہی ساخت اختیار کرکے اس کے ہر حصے پر قابض ہوجاتی ہے. کسی کے دل تک پہنچنا ہو تو پانی کی طرح اپنی انفرادیت برقرار رکھ کے اس کے سانچے میں ڈلو, پھر دیکھنا.

مجھے ہم جماعتوں اور اساتذہ سے محبت ملی تو اس نے مجھے بگاڑ دیا, میری غیر حاضریاں بڑھنے لگی تھیں لیکن میری ذہانت نے اساتذہ کو روکے رکھا تھا. پڑھائی میں اچھا تھا تو استاد کی جگہ کبھی اسلامیات اور کبھی اردو پڑھانے کا موقع مل جایا کرتا تھا, حساب سے ہمیشہ نفرت رہی اور کبھی بھی اس کو سمجھنے کی کوشش نہ کی. ایک دفعہ سکول کا انسپیکشن ہورہا تھا بڑے بڑے پروفیسرز آئے تھے, سارے سٹوڈنٹس ڈرے ہوئے تھے اور ہمارے تو ان پروفیسر صاحبان کے سفید بال اور بڑے بڑے چشمے دیکھ کر ہی اوسان خطا ہوگئے کہ واقعی میں بڑے آدمی ہیں!

وہ لوگ ہماری کلاس میں آئے، رجسٹر کھولا اور رول نمبر سات کے آگے مسلسل تین غیر حاضریاں دیکھ کر زور سے بولے:
"رول نمبر سات کھڑا ہو"۔
اتنے سارے بڑے لوگوں کو دیکھ میں تو یہ بھی بھول گیا تھا کہ یہ "رول نمبر سات" میرا ہے۔ ہیڈ ماسٹر نے آواز دی تو جیسے تیسے کرکے کھڑا ہوا, مجھے یوں لگا کہ یہ سب جلاد ہیں جن کے ساتھ پرنسپل بھی ملک الموت کی طرح کھڑا ہے اور اس کے پیچھے سارے اساتذہ ہاتھ باندھے "مجسمۂ ادب" کھڑے تھے۔

پہلے تو اپنے رول نمبر پر غصہ آیا پھر اپنی چھٹیوں پر کہ ضرور ان غیر حاضریوں کو دیکھ کر ہی میرا رول نمبر پکارا گیا ہے، خیر ایک پروفیسر آگے بڑھے اور میرے ہاتھ میں انگریزی کی کتاب تھما گئے, حکم ہوا کہ پڑھو. مجھے لگا کہ میری دھڑکنوں کا شور اسکول کی گھنٹی سے بھی تیز ہونے لگا ہے. ہیڈ ماسٹر جہاندیدہ تھے سمجھ گئے اور آگے بڑھ کر کہا "بیٹا ڈرو نہیں شاباش۔" 

حواس بحال ہوئے تو ایک صفحہ پڑھ ڈالا لیکن پروفیسر تھے کہ ہر لفظ پر تحقیق کرتے جا رہے ہیں, کونسی فارم میں ہے؟ پاسٹ میں کیسے استعمال ہوگا؟ اس کا جمع کیسے آئے گا؟ مجھے تو لگا ہو نہ ہو یہ صاحب مجھ سے ہی سیکھ رہے ہیں یہ سب۔ 

خدا خدا کرکے انگریزی سے جان چوٹی تو فزکس کے پروفیسر آگے بڑھے، گریوٹیشن پر نیوٹن کا فلسفہ پوچھا، میں نے بتا دیا۔ پھر کہا نیوٹن کو چھوڑو تمہارے خیال میں اس گریویٹیشن کی کیا وجہ ہے؟ 
بہت سوچا جب کوئی جواب نہیں بن پڑا تو خیال آیا کچھ "فلسفۂ محبت" جھاڑتے ہیں :
 "سر، میرا خیال ہے یہ زمین کی محبت کی طاقت ہے جو کسی چیز کو اپنے قریب آنے پر کھینچ کر سینے سے لگا لیتی ہے!"
اور تمام پروفیسرز کا بے ساختہ قہقہہ نکل گیا۔ پروفیسر میرے جوابات سے زیادہ میرے فلسفے سے خوش ہوئے۔

کیمیسٹری کے پروفیسر آئے تو شرارت کے موڈ میں تھے۔ بولے کہ "یہ ایٹم کے متعلق کیا خیال ہے تمہارا؟۔"
ان پروفیسرز کا رویہ اب اچھا خاصا دوستانہ ہوگیا تھا میں نے بلا تکلف کہا:
" سر یہ ایٹم بھی محبت کے بغیر جی نہیں سکتے ان کا دوسرے ایٹموں سے ملنا اس لئے ضروری ہے، یہ کوویلینٹ بانڈ اور آیونک بانڈ کی کشش کی قوت جو آپ بیان کرتے ہیں وہ میرا دل نہیں مانتا!"
پروفیسر ہنستے ہوئے بولے "پھر تو ایٹم کے نیوکلیس کے گرد الیکٹران کا گھومنا بھی محبت کی وجہ سے ہوگا جیسے پروانے شمع کے گرد گھومتے ہیں؟!"
میں نے کہا "دیکھا سر جی، آپ بھی میری طرح سوچتے ہیں" اور پروفیسر کے چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیل گئی.

اب اردو کے پروفیسر آگے بڑھے، پروفیسر نے غزلیات والا حصہ کھولا اور ایک غزل سامنے کردی۔ یہ تو آپ جانتے ہونگے کہ اردو میں سٹوڈنٹس کو سب سے مشکل اس غزلیات کے حصے میں پڑھتی ہے۔ خیر غزل کا مصرعہ پڑھا لیکن ایسا لگا کہ یہ جگہ میں نے کبھی پڑھا ہی نہیں ہے، اردو کے استاد آگے بڑھے اور پروفیسر سے کہا کہ سر یہ ابھی تک بچوں نے پڑھا نہیں ہے ہم اس جگہ تک نہیں پہنچے ہیں، پروفیسر نے میری طرف دیکھا اور بولے "برخوردار، فزکس و کیمسٹری میں تو فلسفہ محبت جھاڑ رہے تھے اب کیا ہوا؟ خود سے تشریح کرلو"

 جو تشریح میں نے کی وہ شائد اس کو پسند آئی, کہنے لگے "بہت خوب بیٹا، کیا نام بتایا تھا آپ نے؟" میں نے کہا "محمودزکی"۔ وہ بولے "اچھاااآ تو موصوف شاعری کا شوق فرماتے ہیں، زکی تخلص بھی رکھا ہے!"۔ میں نے کہا "نہیں سر، یہ تو میرے نام کا حصہ ہے"۔ بولے کہ "اس کا مطلب کیا ہے؟ کس نے رکھا ہے اور کیوں؟"۔ میں نے کہا "سر، لمبی کہانی ہے"۔ اور پروفیسر کھلکھلاکر ہنس پڑے۔

قصہ مختصر ہماری کلاس کی باقی انسپیکشن چھوڑ کر کلاس کو "فائیو سٹار" ریٹنگ دی گئی۔  بعد میں پیغام آیا کہ پروفیسر حضرات نے مجھے پرنسپل کے آفس میں چائے پر بلایا ہے۔

چائے, شائد میری پہلی محبت ہے. کہتے ہیں کہ محبوب کی محبت میں شریک سے نفرت ہوجاتی ہے لیکن مجھے اس محبت میں شراکت بھی پسند ہے. گرم بھاپ اڑاتی چائے میں مجھے محبوب کے جذبوں کی حدت محسوس ہوتی ہے اور اس کی مٹھاس کسی غنچہ فم کی یاد دلانے لگ جاتی ہے. جاڑے کی لمبی راتیں اکثر میری چائے اور کتاب کی آغوش میں گزری ہیں کہ جب باہر ہو کا عالم ہو, یخ بستہ گلیوں میں سے گزر کر نیند گرم کمروں میں بسیرا کیے ہوئے ہو اور میں کسی کتاب کے اوراق میں خود کو گم کیے بیٹھا ہوں. میں سوچتا ہوں ہم رات کی طرح کیوں نہیں بن جاتے جو چاند کے تاریک چہرے کو چھپا کر صرف اس کے چمکتے چہرے کو نمایاں کرتا ہے. رات کا سحر مجھے جکڑتا ہے, ہوش تب آتا ہے جب فطرت کی خوبرو حسینہ صبحدم اپنی سیاہ گھنیری زلفوں سے تاروں کی افشاں چن کر  ان کو سمیٹتی ہے اور نیند کے نشے میں چور احمریں رخساروں کے شفق پر آفتاب کی زرنگار مسکراہٹ سجاکر بیدار ہوتی ہے, طائران سحرخیز حسن کی اس ادا پر وارفتہ و بے خود ہوکر تحسین و آفرین کی چہکار بلند کردیتے ہیں اور صبا کے سبک خرام جھونکے فرط تعطر سے شق پھنکڑیوں کے رخساروں پر ٹھہرے مسرت کے آنسؤوں کا لمس پا کر میرے وجود سے ٹکراتے ہیں تو روح تک مہکتی محسوس ہوتی ہے!!

خیر, کتابوں سے دوستی کے نئے نئے دن تھے, ایک کتاب پر نظر پڑی "غبار خاطر" , پڑھنا شروع کیا تو احساس ہوا کہ مصنف نازک مزاجی اور ذہانت کا حسین مرقع ہیں. خیالات نایاب اور عجیب سی خود داری, میں گرویدہ ہوتا گیا کہ اچانک جیل میں قید تنہائی کا ذکر لے بیٹھتے ہیں. اس کو دوجہانوں کی خوشی سے تعبیر کرتے ہوئے ان لوگوں پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں جو اس کو سزا سمجھتے ہیں. آگے چل کر چائے کی اتنی دلنشین تشریح کرتے ہیں کہ پورا سماں باندھ دیتے ہیں. میں نے محبتوں کی فہرست ہر نظر ڈالی اور آزاد کو اس میں قید کرلیا. ان کی تاریخ پڑھی تو معلوم ہوا کہ ایک بھرپور زندگی گزاری, روایات سے بغاوت کی, اپنوں اور بیگانوں کے طنز و تشنیع کا نشانہ بھی بنے لیکن عوام کی محبتیں بھی سمیٹیں.

عرصے بعد "شورش کاشمیری" کے ساتھ شناسائی ہوئی, کاٹ دار قلم, انقلابی جملے اور ایسی لفاظی جو جذبوں میں آگ بھر دے. پتہ چلا کہ یہ تو آزاد کے تلمیذ ہیں, محبتوں کی فہرست طویل ہوتی گئی اور قلم کے شہسوار اس میں آتے گئے. چائے, کتابیں, بارش, مٹی کی خوشبو, ذہانت, خوبصورتی, آزاد اور جگر مراد آبادی سے لے کر فیض تک یہ سلسلہ تاحال جاری ہے.

 سوز و ساز, راحت و غم کائنات کا حسن ہے اور انہی سے صبح و شام کے رخ حسین رہتے ہیں, انسان کی عجب جبلت ہے کہ وہ کسی حال میں بھی خوش نہیں رہتا بلکہ ہر چیز سے اکتا جاتا ہے. دو غموں کے بیچ کا فاصلہ خوشی کہلاتا ہے یا جہاں پر خوشی کا اختتام ہو وہ غمی بن جاتی ہے. زندگی ایک ہموار ڈگر سے چل رہی تھی کہ اچانک ابو کی طبیعت خراب ہوگئی, ان کو جوانی سے ہی ذیابیطس لاحق تھا. ایک محتاط اندازے کے مطابق موجودہ دور میں ذیابیطس نے دنیا کی آدھی آبادی کو متاثر کر رکھا ہے, ہر تین میں سے ایک ذیابیطس کا شکار ہے. ابوجی کے ہم نے ٹیسٹ کروائے تو اس خبر نے ہمارے ہوش اڑادیے کہ ابو کے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے. ساتھ ہی اچانک فشار خون کی بلندی سے ان پر فالج کا بھی حملہ ہوا اور بصارت بھی کمزور ہوگئی. یہ سب کچھ اتنی جلدی ہوا کہ سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا, ابو کو ہم نے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے کڈنی سینٹر منتقل کیا جہاں ان کے ڈائلاسس ہونے لگے. انسان سب کچھ برداشت کرلیتا ہے لیکن اپنے پیاروں کو تکلیف میں دیکھنا برداشت نہیں کرسکتا, ان لمحات کو سوچنا میرے لیے ابھی بھی تکلیف دہ ہے. انگلیاں کاٹی جا چکیں, تلوے میں ایک بڑا زخم ہے جس سے چلنے کی سکت نہیں, فالج کے اثرات سے خود اٹھنے پر بھی دسترس نہیں, بصارت گھائل اور دماغ شدید متاثر لیکن پھر بھی میری ہمت بندھاتے ہیں کہ میں بالکل ٹھیک ٹھاک ہوں. مصنوعی پائپوں کے ذریعے جسم سے خون نکال کر صاف کیا جا رہا ہے اور ابو مسکرا کر ڈاکٹر سے مذاق کر رہے ہیں, بستر مرگ پر اتنی بہادری نے مجھے سکھایا کہ موت کا بھی کس طرح استقبال کیا جاتا ہے. ایک مہینہ آئی سی یو میں گزرتا ہے تو مجھے کہتے ہیں, اپنی بہن اور بھائی کو بلاؤ میں زرا ایک آخری بار ان سے مل لوں. میں کمرے سے باہر نکل آتا ہوں, اگلے دن بچوں سے ملنے کے بعد کہتے ہیں بیٹا زرا قلم اور کاغذ لے کر آجانا وصیت لکھوانی ہے, میرے گلے می آنسؤوں کا ایک گولہ سا پھنس جاتا ہے.

غم و حوادث ہمیشہ راتوں کو ہی آتے ہیں, 26 فروری 2014 کی اس رات بھی سب معمول کے مطابق تھا کہ دو بجے ان کو سانس لینے میں دقت پیش آنے لگی, جلدی سے میں نے ڈاکٹر کو نیند سے اٹھایا وہ آکر اپنی ٹیم کے ساتھ ابو کا چیک اپ کرنے لگا اور مجھے آئی سی یو سے باہر نکال دیا. وہ لمحات زندگی کے ناقابل برداشت تھے جب میں باہر ہال میں بے چینی سے ٹہل رہا تھا, دل میں التجائیں اور زبان پر دعائیں تھیں. کچھ دیر بعد آئی سی یو کا دروازہ کھلا, مجھے اندر آنے کو کہا گیا اور جیسے ہی میری سامنے نظر پڑی میری ہمت اور ضبط نے میرا ساتھ چھوڑ دیا. جب سے ہوش سنبھالا ہے تب سے شائد میں زندگی میں پہلی دفعہ رویا ہوں, ابو جی کی سانسیں رک چکی تھی اور وہ ہمیں چھوڑ چلے تھے.

امی, بہن اور بھائی کو اطلاع دینے کا حوصلہ بھی خود میں نہیں پا رہا تھا, سب کچھ ختم ہوچکا تھا لیکن جب گھر پہنچا تو امی کی استقامت نے حیران کردیا. کمال ہمت سے امی نے سب کو سنبھالا ہوا تھا, اور اس ہی ہمت نے اس غم کو سہنے کا حوصلہ دیا. اس کے بعد زندگی نے چار افراد پر مشتمل اس گھرانے کو بہت اتار چڑھاؤ دکھائے, زمانے کے سرد و چشم سے آشنا کیا کہ کیسے بے سر و سائباں یہاں جیا جا سکتا ہے. سچ کہتے ہیں والدین چھاوں کی مانند ہوتے ہیں جن کے بغیر تپتی دھوپ ہی جلا سکتی ہے. ان تین سالوں میں زمانے نے مجھے اتنا سکھا دیا کہ جو میں ساری زندگی نہیں سیکھ پایا تھا. شائد یہ میری زندگی کا ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا جہاں سے میرے اندر تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوگئی. جذبات کی جگہ ٹھہراؤ نے لے لی اور خود کو ہر قسم حالات کے مطابق ڈھالنا سیکھ لیا, بردباری اور تحمل مزاجی نے شخصیت کو ایک نئی راہ سے آشنا کرلیا جہاں برداشت اور احساس ہی سب کچھ ہے. کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ:

"سنا تھا اداسی میں بڑی طاقت ہوتی ہے, اس طاقت کو اپنی ذات کے سنوارنے میں استعمال کرنا ہے. پکاسو کی پینٹنگز، میر کی شاعری، یوسفی کا مزاح، مولانا روم کی حکمت، بدھا کی تعلیمات، ایڈیسن کی ایجاد، نیوٹن کی principia Mathematica یہاں تک کے آئن سٹائن کی امریکہ میں ریسرچ اور انبیاء کا سوز سب اداسی کی پیداوار تھا. دنیا کا بہترین ادب غم کی پیداوار ہے، اداسی بڑی دولت ہے. دوسری طرف انسان کے خمیر میں ہی محبت ہے کہ اس کے نام کے ہجے بھی انس کا پیغام دیتے ہیں. 

زندگی کیا ہے, کیوں ہے, میں کون ہوں, کیا ہوں, یہ ایک نہ ختم ہونے والی الجھن ہے جس کا سرا ملنا مشکل ہے. میں خود ہی سوال ہوں خود ہی جواب ہوں, ایک طلسم ہے جو حل نہی ہوسکتا. شیکسپیئر نے کہا تھا کہ یہ دنیا ایک سٹیج ہے اور ہم اس کے کردار ہیں. ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ ہمارا یہ ڈرامہ دیکھنے کے لئے کوئی موجود بھی ہے یا نہیں.

اگر ہے تو نجانے وہ ہماری اداکاری کے سحر میں مبتلا ہو کر خاموش ہے یا وہ سکرپٹ لکھنے والا ہے اور پہلے سے ہی سب جانتا ہے. اگر سکرپٹ پہلے سے جانتا ہے تو اس کے لئے یہ سب ڈرامہ کافی بورنگ اور اکتا دینے والا ہو گا. غالب بھی کہتے ہیں کہ اصل شہید و شاہد و مشہود ایک ہے. سٹیج کا سکرپٹ رائٹر جو بھی ہو، جیسا بھی ہو، اسے کہانی میں ٹوئسٹ بہت پسند ہے. تبھی تو ہر بگڑتے کام کو معجزانہ طور پر بنتا دیکھتے ہیں اور بنتے کام کو بگڑتا دیکھتے ہیں. اس کہانی کے کرداروں میں ہمیں اندھا اعتبار اور بلاوجہ بدگمانی دونوں ہی ملتے ہیں..

دنیا میں برائی کیوں ہے؟
سب نیک کیوں نہیں ہیں؟
اپنے کام سے کام کیوں نہیں رکھتے؟
فساد کیوں ہے؟ بگاڑ کیوں پیدا ہوتا ہے؟
قتل کیوں ہوتے ہیں، سیریل کلر کیوں ہوتے ہیں!

یہ سب اس لئے ہوتے ہیں تاکہ ڈرامے میں مزا باقی رہے، سبھی صوفی منش ہو گئے تو یہ سٹیج پھیکا پڑ جائے گا. زندگی جاری رکھیں، ناظر کو مزا آتا ہے!"

1 comments:

Anonymous نے لکھا ہے کہ

ابھی پوری کہانی نہیں پڑھ سکا ۔۔۔لیکن بہت دلچسپ لگ رہی۔۔

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔